Class 10th urdu BSEB Bihar Board bhabhi jaan

بھابھی جان – سہیل عظیم آبادی 

 مختصر ترین سوالاب و جوابات 

سوال  ١.سہیل عظیم آبادی کہاں پیدا ہوۓ ؟

جواب : سہیل عظیم آبادی پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔

سوال  ٢.سہیل عظیم آبادی کے بچپن کا نام کیا تھا ؟

 جواب : سہیل عظیم آبادی کے بچپن کا نام مجیب الرحمن تھا ۔

 سوال  ٣. سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کا نام کیا تھا اور وہ کس سال شائع ہوا تھا ؟

 جواب : سبیل عظیم آبادی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ چار چہرے ‘ ‘ ہے جو تقریبا ۱۹۳۴ میں شائع ہوا ۔

 سوال  ٤.سہیل عظیم آبادی کی ابتدائی تعلیم کسی مدرسے میں ہوئی ؟

جواب : سہیل عظیم آبادی کی ابتدائی تعلیم بھد ولی گاؤں کے مدرسے میں ہوئی ۔

مختصر سوالات مع جوابات

سوال ١. رقیہ بھابھی کے جس دیور کا کر دار کہانی میں پیش کیا گیا ہے اس کا نام کیا تھا ؟

جواب : رقیہ بھابھی کے جس دیور کا کردار کہانی میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس کا نام اختر تھا ۔ اختر کا کردار بہت ہی مثبت اور بامعنی کردار ہے ۔ اختر کے کردار کے ذریعہ ہی رقیہ بھابھی کا کردار نمایاں ہوتا ہے ۔ اور اس کردار کے سہارے کہانی بھی ارتقا پذیر ہوتی ہے ۔اختر  کے کردار نے دراصل رقیہ بھابھی کے کردار میں انسانی پہلو کواجاگر کیا ہے ۔

 سوال  ٢.رقیہ بھابھی کے شوہر کو بار بار کیوں جیل جانا پڑتا تھا ؟

 جواب : رقیہ بھابھی کے شوہر کو بار بار اس لئے جیل جانا پڑتا تھا کہ انہیں سیاست سے کافی دلچشپی تھی ۔ اس وقت تحریک آزادی زوروں پر چل رہی تھی ۔ رقیہ بھابھی کے شوہر پر کئی  سیاسی مقدمے  چل رہے تھے ۔ کسی مقدمہ میں دو سال کی سزا ہوگئی ۔ جیل چلے گئے اور دو سالوں کے بعد جب رہائی ملی  تو معلوم ہوا کہ کسی دوسرے مقدمہ میں انہیں تین سال کی سزا ہوگئی ۔ یہی وجہ تھی کہ رقیہ بھابی کے شوہر کو بار بار جیل جانا پڑتا تھا ۔

 سوال  ٣. رقیہ بھا بھی کس لڑکی کی تعلیم کا خرچ خود برداشت کرتی تھیں اور کیوں ؟

جواب  :-رقیہ بھابھی شمی  نام کی لڑکی کی تعلیم کا خرچ خود برداشت کرتی تھیں اس لئے کہ شمی  بہت غریب لڑکی تھی اسے پڑھنے کا ذوق بہت زیادہ تھا لیکن غربت کی وجہ سے والدین اس کی تعلیم کا خرچ برداشت نہیں کر پاتے تھے اس لئے رقیہ بھا بھی جو کالج میں لکچر تھی انہوں نے شمی کے تعلیم کا خرچ اپنے ذمہ لے لیا- اس طرح وہ دوسرے حاجت مندوں کی مدد بھی کیا کرتی تھیں ۔  .

سوال  ٤. رقیہ بھابھی کوسونے کی چوڑیوں کو کیوں فروخت کروانا پڑا تھا ؟

 جواب : رقیہ بھابھی نے اپنے سونے کی چوڑیوں کو اس لئے بیچ دیا تھا کہ ایک غریب لڑ کی تھی جوان کے کالج میں پڑھتی تھی اور اس لڑکی کے تمام ترتعلیمی اخراجات رقیہ بھابھی برداشت کیا کرتی تھیں ایک دن وہی لڑ کی رقیہ بھائی کے پاس آئی اور اشک آلود آنکھوں سے سراپا سوال بن گئی ۔ رقیہ بھائی کے بار باراصرار پر بولی کہ بھائی جان کے ایم اے امتحان کا فارم بھرنا ہے اور کل آخری تاریخ ہے چنانچہ رقیہ بھائی نے شمی کے بھائی کا تعلیمی کیر پر بنانے کے لئے سونے کی چوڑیوں کو فروخت کر کے  شمی  کو دے  دیا  ۔

 سوال ۵ . رقیہ بھائی کو جب فرصت ملتی تھی تو اپنا شوق پورا کرنے کے لئے وہ کون سا کام کرتی تھیں ؟

جواب : رقیہ بھابی کو جب فرصت ملتی تھی تو اپنا شوق پورا کرنے کے لئے خط لکھنے بیٹھ جاتی تھیں بہت سے لکھنے والے ان کو خط لکھتے تھے اور خط میں لکھنے پڑھنے اور مضمون نگاری سے متعلق مشورے طلب کر تے تھے ۔ رقیہ بھابی تمام خطوط کے جواب پابندی سے دیا کرتی تھیں اس کے علاوہ وہ کالج میں تدریس کے علاوہ طلباء سے ان کے ذاتی حالات بھی معلوم کرتی رہتی تھیں اور جہاں تک ہوسکتا تھا ان کی مدد بھی کیا کرتی تھیں ۔

طویل سوالات مع جوابات

سوال  ١.رقیہ بھابھی  کا سرا پا کم از کم دس جملوں میں تحریر کر میں ۔

 جواب : رقیہ بھابھی کا سراپا یہ تھا کہ وہ صبح اٹھ کر کام شروع کر دیا کرتی تھیں ۔ان کا زمانہ اب بالکل بدل چکا تھا ب کبھی  چار پانچ نوکر اور ماما ئیں ہوتی  تھیں ۔ اب ان کے پاس صرف ایک نوکر تھا جو بازار سے سودا لا تا تھا اور کھانا پکاتا  تھا پھر روپیوں کی بھی بڑی تنگی تھی پہلے وہ ہزاروں روپے ماہوار اپنے شوق پر خرچ کر دیا کرتی تھیں ۔ اب چار سو روپے ماہوار پر ایک کالج میں ٹیچر رکھیں اور پچاس روپیے ما ہوا ایک لڑکی کو پڑھانے کے لئے ملتے تھے ۔ لے دے کر یہی ان کی آمدنی تھی اور اخراجات اپنی جگہ پر بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ ہیں ۔ اپنے اور بچوں کا خرچ ہوتا تو کسی طرح پورا ہو جا تا ۔لیکن وہ بھی بڑھ گیا تھا ۔ بچوں اور اپنی ضروریات کے علاوہ ایک مستقل رقم انہیں ہر مہینہ مزدوروں اور طالب علموں کی انجمنوں کو دینا پڑتی تھی ۔ کانفرنسوں اور جلسوں میں شرکت کے لئے کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا کئی غریب لڑکیاں صرف ان کی مدد سے پڑھ رہی تھیں ۔ معاشرے کے محتاج لوگوں کی مدد کے لئے رقیہ بھابھی بھی کبھی  بنگلے کے احاملے سے باہر بھی جاتی تھیں ان کے ہاتھ میں دودھ کی وہ بوتل تھی جو دیر تک میز پر رکھی رہتی تھی ۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کالج کے ایک پرانے ملازم کی بیٹی اسپتال میں ہے- دو مہینے پہلے اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کے بعد بچہ پیدا ہوا ہے اس کا کوئی دیکھنے والا نہیں تھا ۔ بھابی خود ہی دونوں وقت دودھ کی بوتل لے کر دوفرلانگ پیدل جاتی تھیں اور دودھ پہنچاتی تھیں ۔ اس بچے کے لئے سوئیٹر اور موزے بھی بنوائے تھے ۔ کیونکہ سردی کا موسم شروع ہو رہا تھا اور کی ان کے کالج کی ایک غریب طالب علم تھی ۔ جوصرف ان کی مدد کے سہارے پڑھ رہی تھی مختصر یہ کہ رقیہ بھابی کا سرا پا بہت ہی دلچسپ اور قابل تقلید تھا ۔

 سوال -٢. رقیہ بھابھی  کے کردار کو ایک مثالی کردار بنا کر سہیل عظیم آبادی نے قاری کو حوصلہ دینے کا کام کیا ہے ، اس خیال سے آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں ؟

جواب : سہیل عظیم آبادی نے زیر نصاب کہانی ببھابھی جان میں رقیہ بھائی کی شکل میں ایک ایسی عورت کے کردار کو پیش کیا ہے جو مہر و وفا اور ایثار وقربانی کی ایک خوبصورت مثال ہے ۔ کہانی جیسے جیسے بتدریج آگے بڑھتی ہے رقیہ بھابھی  ہمارے دلوں میں اپنا ایک مضبوط مقام بناتی چلی جاتی ہیں ۔ در اصل کہانی میں ان کی پوری شخصیت ایک شمع کی طرح روشن ہو کر قارئین کے سامنے آتی ہیں اور شمع جوں جوں جلتی  اورپگھلتی  رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کا وجود بھی ختم ہو جا تا ہے لیکن اس کی روشنی سے نہ جانے کتنے تار یک زمین منور  ہوتے رہتے ہیں ۔ رقیہ بھابھی  ایک ایسی خاتون تھی جو دن میں کالج میں لکچرر کی حیثیت سے تدریسی   ذمہ داری بھی ادا کرتی تھیں اوراسی درمیان غریب اور ذہین طلبہ کے احوال کی پرشش کر تے ہوئی ان کی حاجت روائی بھی کرتی رہتی تھیں ۔ گھر میں اندرون خانہ کی تمام تر ذمہ داری بھی انہیں کے او پرتھی مثلا بچوں کی تعلیم وتربیت وقت پر ان کے کھانے پینے کا انتظام اپنے دیور کی خاطر داری اور آمدنی محدودھی نتیجہ ہیں یہ  کہ رقیہ بھابھی ہمیشہ مالی دشواریوں  سے دو چار رہتی تھیں ۔ اس لئے کہ جس کالج میں وہ کلچر میں وہاں سے ان کو صرف چار سو روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی  تھی ۔ اس کے علاوہ رقیہ بھابھی  ایک لڑکی کو ٹیوشن بھی  پڑھاتی تھیں جس سے انہیں پچاس روپے ماہانہ مل  جاتے تھے ۔ لے دے کر یہی ان کی کل آمدنی تھی اور خرچ بہت زیادہ تھا ۔ ان کے شوہر کو سیاست کا بھی شوق تھا ، جس کی وجہ سے انہیں بار بار جیل جانا پڑتا تھا ۔ رقیہ بھابی نے تمام باتوں کے باوجود بھی اپنے شوہر کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا ۔ اور تنہا سارا غم  جھیلتی   رہیں ۔انہوں نے غموں کے درمیان جینا اور خوش رہنا سیکھ لیا تھا وہ ایک انتہائی ہمدرد مخلص اور حوصلہ مند عورت تھیں ۔غریبوں اور بے سہارالوگوں کی مددکرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ اس طرح دیکھتے ہیں کہ سہیل عظیم آبادی نے رقیہ بھائی جیسی حوصلہ مند عورت کا کر دار پیش کر کے اپنے قاری کو حوصلہ دینے کا کام کیا ہے ۔

 سوال ٣. سہیل عظیم آبادی اردو کے کس افسانہ نگار سے بہت زیادہ متاثر تھے اور کیوں ؟

 جواب : سہیل عظیم آبادی منشی پریم چند کی فنکاری اور ان کی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔ چونکہ منشی پریم چند نے ہندوستان کے دیہاتی ماحول کو اپنے افسانوں میں پیش کیا تھا ۔ کیونکہ ہندوستان کی بیشتر آبادی گاؤں میں ہی بستی ہے اس لئے ہندوستان کا اصل تہذیب اور سماج  گاؤں میں ہی پایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند نے اپنے افسانوں کے موضوعات دیہات سے ہی حاصل کئے اور دیہاتی واقعات کو ہی اپنے افسانوں میں پیش کیا چنانچہ پریم چند کے اکثر و بیشتر کردار دیہات سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ سہیل عظیم آبادافسانہ کے فن کے تعلق سے منشی پریم چند سے بہت زیادہ متاثر رہے ۔ اور زندگی بھر اردو کی ترویج واشاعت میں مصروف ہے ۔ چنانچہ انہوں نے چھوٹا نا گپور کے علاقے میں پانچ سات برسوں تک اردو کی ترویج واشاعت کا کام کیا ۔ پیدائشی اعتبار سے زمیندارانہ ماحول سے متعلق رہے اور چھوٹا ناگپور  کے قیام نے سہیل کے افسانوں کے لئے موضوعات بھی متعین کر دیے ۔ان کے اکثر و بیشتر افسانے زمینداروں کے استحصال کے خلاف مزدوروں اور کمزور طبقوں کے حقوق جیسے موضوعات سے متعلق ہیں ۔ سہیل عظیم آبادی کا زیرنصاب افسانہ بھائی جان ‘ ‘ زبان ، اسلوب اور ہییت  کے اعتبار سے ایک کامیاب اور عمدہ افسانہ ہے اس کا موضوع بھی نیا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا اور عام موضوع ہے ۔ پھربھی کہانی پڑھنے والوں کو ایک نیا عزم اور حوصلہ دیتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ سبق بھی دیتی ہے کہ انسان اگر چاہے تو دشواریوں اور پریشانیوں کے درمیان بھی اپنے لئے جینے کی راہ نکال سکتا ہے ۔ سہیل کی کہانیوں کے یہ کردار ا در موضوع بھی پریم چند کے افسانوں سے متاثر نظر آتے ہیں ۔

سوال -٤.افسانہ بھابھی  کے کس کر دار نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور کیوں ؟

جواب : زیر نصاب افسانہ بھابھی  جان ‘ ‘ سہیل عظیم آبادی کا ایک کامیاب افسانہ ہے جس میں رقیہ بھابھی  کا کردار قابل قدر ہے ۔ جس کا صحیح اندازہ ان کے شب وروز کے معمولات سے ہوتا ہے جیسے وہ صبح سویرے اٹھتیں   ، پہلے بچوں کونہلا تیں ، ان کے کپڑے بدلتیں اور خود نہا دھوکر تیار ہوتیں بچوں کو کھلا پلا کر اسکول بھیج دیتیں پھر ملنے والوں کا سلسلہ شروع ہو جانا طرح طرح کے لوگ ان سے ملنے آتے اور طرح طرح کی فرمائش کرتے ۔ کوئی ان سے ملازمت کی سفارش کرنے کے لئے کہتا کوئی کسی اور کام کے لئے سب طرح کی فرمائش کرتے ۔ کوئی ان سے ملازمت کی سفارش کرنے کے لئے کہتا کوئی کسی اور کام کے لئے سب آدمی انہیں بڑے آدمی کی بیوی اور بہو سمجھتے تھے کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ بھابھی  جان کا تعلق اب بڑے لوگوں سے صرف چھوٹے لوگوں کی وجہ سے رہ گیا ہے وہ بڑے لوگوں کے پاس صرف سفارش لے کر جاتی ہیں ورنہ بڑے لوگوں سے اب انہیں دور کا کوئی واسطہ نہیں ۔ بھابھی کالج جاتیں اور وہاں بھی پڑھانے کے علاوہ ہرلڑ کے کے معاملات میں دیچسپی لیا کرتیں کالج سے آ کر پابندی کے ساتھ کئی کئی خطوط روز لکھتیں اور انہیں ڈاک میں ڈلواتیں عام طور پر یہ خطوط نئے لکھنے والوں کے نام ہوتے تھے جو ہر روز انہیں خط لکھا کرتے تھے ۔رقیہ بھابی نے محض دل بہلانے اور وقت کاٹنے کے لئے لکھنا شروع کیا تھا مگر وہ بہت اچھا لکھنے لگیں تھیں ۔ اور نئے لکھنے والے ان سے مشورے طلب کر تے اور وہ بڑی محبت کے ساتھ ان کے خطوط کا جواب دیا کرتیں ، اس طرح کے نئے لکھنے والے نہ تو غلط فہمیوں کا شکار ہوکر بہک جائیں اور نہ ہی ان کی دل شکنی ہو ۔ ان مصروفیات کے باوجودرقیہ بھابی کا چہرہ کبھی  غمزدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے غم  کو اپنے لئے مسرت بھنے گئی ہیں اور غم میں بھی خوشی کا پہلو نکال ہی لیتی ہیں ۔ یعنی صبح  جاگنے کے بعد سے سوتے وقت تک ایک مشین معلوم ہوتی تھیں ۔ غریب بچیوں کی تعلیم اور ان کی شادی وغیرہ کے موقع پر بھی وہ مدد کرنے سے باز نہیں آتی تھیں یعنی ایسے ناموافق حالات کے باوجود ہمیشہ دوسروں کو حوصلہ اور سہارا دیتی رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رقیہ بھابی کے کردار نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ۔

 سوال٥. سہیل عظیم آبادی کے بارے میں اپنے اردو کے استاد سے مدد لے کر کم از کم دس جملےتحریر کر کیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی تحریر کر میں کہ ان کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ کا نام کیا تھا اور وہ کب شائع ہوا تھا ؟

جواب : سہیل عظیم آبادی کا اصل نام سید مجیب الرحمن ہے ابتدائی زندگی میں شاعری بھی کرتے تھے اور سہیل خلص کرتے تھے اس لئے ادبی منظر نامے پر سہیل عظیم آبادی کے نام سے مشہور ہوۓ ۔ ان کی پیدائش 1911 ء میں پٹنہ میں ہوئی سہیل عظیم آبادی کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے تھا ایک سال کی عمر میں والد و وفات پا گئیں چنانچہ نانیہال میں ان کی پرورش ہوئی اور وہیں ایک استاد کی سر پرستی میں آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کی گر چہ آپ کا آبائی وطن شاہ پور بھدول ہے جو پٹنہ  کے مضافات میں واقع ہے ۔ مظفر پور ، حیدر آباداور کلکتہ جیسے علمی مراکز میں رہنے کے باوجوداپنے اتحاد طبع کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہیں کر سکے ۔سیل عظیم آبادی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا لیکن آگے چل کر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہو گئے پھر پچھے  مڑ کر نہیں دیکھا اور بے شمار افسانے لکھے۔اس دوران انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت اختیار کر لی ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں بھی رہے کشمیر  میں بھی رہے اور آخر کار تبادلہ کرا کر پٹنہ واپس آ گئے اور ملازمت سے استعفی بھی دے دیا ۔ سبیل عظیم آبادی اردو کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں پانچ چھ سالوں تک کچھوٹا نا گپور  کے علاقے میں مقیم رہے جہاں کے ماحول میں انہوں نے افسانوں کے لئے موضوعات متعین کئے ۔ ان کے دوسرے افسانوی مجموعے کا نام’’الاو ‘ ‘ ہے جوان کی زندگی میں ہی شائع ہو چکا تھا-

error: Content is protected !!