Class 10th urdu BSEB Bihar Board Adab ki pahchan

 ادب کی پہچان  

مختصر ترین سوالات مع جوابات

مختصر ترین سوالات مع جوابات

سوال ١.  نصاب میں شامل مضمون ادب کی پہچان کے مضمون نگارکون ہیں ؟

جواب : مضمون ’ ’ ادب کی پہچان کے مضمون نگار ڈاکٹر عبدالمغنی ہیں ۔

سوال ٢.  ڈاکٹر عبدالمغنی کب اور کہاں پیدا ہوۓ ؟

جواب : ڈاکٹر عبدالمغنی کی پیدائش اورنگ آباد میں ۱۹۳۴ ء میں ہوئی ۔

سوال  ٣. ڈاکٹر عبدالمغنی کی دو کتابوں کے نام لکھئے ؟

جواب : ڈاکٹر عبدالمغنی کی دو کتابیں ہیں : ( 1 ) جادۂ اعتدال ( 1 ) تشکیل جدید

سوال  ٤. ہے ڈاکٹر عبدالمغنی نے کس مدرسے سے اور کہاں تک تعلیم حاصل کی ؟

جواب : ، ڈاکٹر عبدالمغنی نے مدرسی شمس الہدی پٹنہ میں درجہ عالم تک تعلیم حاصل کی ۔

سوال  ٥.ہے ڈاکٹر عبدالمغنی نے اپنی ملازمت کا آغاز کس کالج سے کیا ؟

جواب : ڈاکٹر عبدالمغنی نے اپنی ملازمت کا آغاز پٹنہ کالج سے کیا

مختصر  سوالات مع جوابات

سوال1-  ڈاکٹر عبدالمغنی کی تنقید نگاری پر پانچ جملے لکھئے ۔

جواب : ڈاکٹر عبدالمغنی کا شمار صوبہ بہار کے ممتاز تنقید نگاروں میں ہوتا ہے ۔موجودہ دو رمیں شعر و ادب اور فکر و نظر کو وسعت بخشنے میں اور ایک مخصوص تنقیدی اصول کو مقبول بنانے میں ڈاکٹر عبد المغنی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

چنانچہ انہوں نے شعر وادب کے متعدد اصناف کے بارے میں تنقیدی اطلاعات پیش کئے ہیں ۔ تنقید کے میدان میں اقبال ان کا خاص موضوع رہا ہے ۔ زندگی اور ادب کے حوالے سے وہ ایک مخصوص تعمیری نقطہ نظر کے حامل تھے اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی تنقیدی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔

سوال 2- ادب کی پہچان پرمختصر روشنی ڈالئے ؟

جواب : ادب دراصل ایک خاص قسم کی تحریر کا نام ہے اور ادب کا صرف ایک خاص اسلوب ہی نہیں بلکہ ایک خاص مواد بھی ہے یعنی ادب کے خام وسائل جو بھی ہوں مگر تخلیق کی شکل میں اس کا ایک مخصوص موضوع بھی ہے اور ہیئت بھی بلکہ یوں کہئے کہ ادب کے کچھ خاص خاص موضوعات اور ہیئتیں  ہیں جن کا اظہار کچھ متعین اصناف میں ہوتا ہے چنانچہ جوکچھ ان  اصناف میں لکھا جاۓ وہی ادب ہے اور جو کچھ ان اصناف سے باہر ہے ادب نہیں ہے ان چیزوں کی پہچان اور ادراک کو ہی”ادب کی پہچان”کہتے ہیں ۔

سوال 3- “ادب کی پہچان” کے حوالے سے ادب کی مختصر تعریف کیجئے ۔

جواب : ہم ادب کی پہچان کس طرح کر یں ایک فنکار اپنے فن کا نمونہ پیش کرتا ہے ۔ وہ کتنا ادبی ہے عبدالمغنی کے زیر نصاب مضمون ادب کی پہچان میں مکمل زور اسی بات پر دیا گیا ہے کہ ہر تحریر ادبی نہیں ہوتی اور ہر ادب کا معیاری ہونا بھی لازمی ہے ایک فنکار اپنا جواد بی نگارش پیش کرتا ہے وہ فنی نمونہ جسے پڑھ کر ہمارے اندرسرور وانبساط کی کیفیت پیدا ہواور ہم اس سے آسودگی محسوس کر یں وہ تمام نگارشات ادب میں شامل ہوتی ہیں ۔

طویل سوالات مع جوابات

مختصر  سوالات مع جوابات

سوال1-  ڈاکٹر عبدالمغنی کی تنقید نگاری پر پانچ جملے لکھئے ۔

جواب : ڈاکٹر عبدالمغنی کا شمار صوبہ بہار کے ممتاز تنقید نگاروں میں ہوتا ہے ۔موجودہ دو رمیں شعر و ادب اور فکر و نظر کو وسعت بخشنے میں اور ایک مخصوص تنقیدی اصول کو مقبول بنانے میں ڈاکٹر عبد المغنی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

چنانچہ انہوں نے شعر وادب کے متعدد اصناف کے بارے میں تنقیدی اطلاعات پیش کئے ہیں ۔ تنقید کے میدان میں اقبال ان کا خاص موضوع رہا ہے ۔ زندگی اور ادب کے حوالے سے وہ ایک مخصوص تعمیری نقطہ نظر کے حامل تھے اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی تنقیدی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔

سوال 2- ادب کی پہچان پرمختصر روشنی ڈالئے ؟

جواب : ادب دراصل ایک خاص قسم کی تحریر کا نام ہے اور ادب کا صرف ایک خاص اسلوب ہی نہیں بلکہ ایک خاص مواد بھی ہے یعنی ادب کے خام وسائل جو بھی ہوں مگر تخلیق کی شکل میں اس کا ایک مخصوص موضوع بھی ہے اور ہیئت بھی بلکہ یوں کہئے کہ ادب کے کچھ خاص خاص موضوعات اور ہیئتیں  ہیں جن کا اظہار کچھ متعین اصناف میں ہوتا ہے چنانچہ جوکچھ ان  اصناف میں لکھا جاۓ وہی ادب ہے اور جو کچھ ان اصناف سے باہر ہے ادب نہیں ہے ان چیزوں کی پہچان اور ادراک کو ہی”ادب کی پہچان”کہتے ہیں ۔

سوال 3- “ادب کی پہچان” کے حوالے سے ادب کی مختصر تعریف کیجئے ۔

جواب : ہم ادب کی پہچان کس طرح کر یں ایک فنکار اپنے فن کا نمونہ پیش کرتا ہے ۔ وہ کتنا ادبی ہے عبدالمغنی کے زیر نصاب مضمون ادب کی پہچان میں مکمل زور اسی بات پر دیا گیا ہے کہ ہر تحریر ادبی نہیں ہوتی اور ہر ادب کا معیاری ہونا بھی لازمی ہے ایک فنکار اپنا جواد بی نگارش پیش کرتا ہے وہ فنی نمونہ جسے پڑھ کر ہمارے اندرسرور وانبساط کی کیفیت پیدا ہواور ہم اس سے آسودگی محسوس کر یں وہ تمام نگارشات ادب میں شامل ہوتی ہیں ۔

طویل سوالات مع جوابات

سوال1-  ڈاکٹر عبدالمغنی کی تنقید نگاری پرتفصیلی روشنی ڈالئے ۔

جواب : صوبہ بہار کے جن دانش وروں نے کلیم الدین احمد کے بعد تنقید نگاری کے میدان میں اپنی ایک شناخت بنائی ہے ان میں ڈاکٹر عبدالمغنی کی شخصیت نہایت اہم ہے۔اس لئے وہ صوبہ بہار کے دانش وروں اور تنقید نگاروں میں ممتاز سمجھتے جاتے ہیں ۔موجودہ دور میں شعر و ادب اور فکر ونظر کو وسعت اور شفافیت کے ساتھ پیش کرنے والوں اور ایک مخصوص تنقیدی اصول کو مقبول بنانے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کی خدمات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے والد مولانا عبدالرؤف ایک معروف عالم دین تھے ۔

عبدالمغنی کی پیدائش صوبہ بہار کے اورنگ آباد ضلع میں ۱۹۳۴ ء میں ہوئی ۔ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔ آگے کی تعلیم کے لئے انہوں نے مدرسہ شمس الہدی ، پٹنہ میں داخلہ لیا ۔ یہاں انہوں نے عالم تک تعلیم حاصل کیا ۔ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ انہوں نے عصری تعلیم بھی حاصل کیا اور پٹنہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا ۔ پٹنہ کالج میں انگریزی کے لکچرر کے عہدہ پران کا تقرربھی ہوا ۔ پھر بی این کالج میں عبد المغنی کا تبادلہ ہو گیا جہاں سے انہوں نے ملازمت کی مدت پوری کر کے سبکدوشی حاصل کیا ۔

عبدالمغنی نے شعر و ادب کی متعدد اصناف کے بارے میں اپنی تحقیقی اطلاعات پیش کی ہیں تحقیق و تنقید میں اقبال کی شاعری ان کا خاص موضوع رہا ہے وہ تقریباً بیس  کتابوں کے مصنف ہیں ، جو سب کی سب تنقید کے موضوع پر ہی ہیں ۔ زندگی اور ادب کے حوالے سے وہ ایک مخصوص تعمیری نقطہ نظر کے حامل تھے اور انہوں نے اسے کامیابی کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے ۔ان کی اہم ترین تنقیدی تصانیف میں جادۂ اعتدال ، نقطہ نظر ، معیار واقدار تشکیل جدید،”اقبال اور عالمی ادب” وغیرہ ہیں ۔

سوال2-  ادب کی پہچان کے حوالے سے ادب کے تعلق سے مختلف نظریات بیان کیجئے ۔

جواب : ادب کی پہچان کے حوالے سے ادب کی تعریف کے بارے میں عبدالمغنی نے اپنے زیر نصاب مضمون میں کئی نظریات پیش کئے ہیں ۔ اس سلسلے میں عبدالمغنی نے ایک نظریہ پیش کیا ہے کہ مختلف موضوعات پر جو کچھ بھی ادبیت کے ساتھ لکھا جاۓ وہ ادب ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب در حقیقت ایک اسلوب ایک طرز کا نام ہے اس کا کوئی خاص موضوع نہیں ہے چنانچہ ادب کی تاریخوں میں ادبی اسلوب میں لکھی ہوئی ہرقسم کی تحریروں کو ادب کے زمرے میں درج کیا گیا ہے ۔

ادب کی پہچان کے تعلق سے دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ادب دراصل ایک خاص قسم کی تحریر کا نام ہے اور ادب کا صرف ایک خاص اسلوب ہی نہیں بلکہ ایک خاص مواد بھی ہے یعنی ادب کے خام وسائل جو بھی ہوں مگر تخلیق کی شکل میں اس کا ایک مخصوص موضوع بھی ہے اور ہیئت بھی بلکہ یہ کہا جائے کہ ادب کے کچھ خاص خاص موضوعات اور ہیئتیں ہیں جن کا اظہار کچھ صنفوں میں ہوتا ہے چنانچہ جو کچھ ان اصناف میں لکھا جاۓ وہی ادب ہے اور جو کچھ ان صنفوں کے باہر ہے وہ ادب نہیں ہے خواہ اس کے اندر کتنی ہی اد بیت کیوں نہ پائی جائے اس لئے کہ ادب ایک خاص شکل کا نام ہے جیسے شاعری ڈرامہ ناول اور افسانہ وغیرہ ۔

اگر ادب کا کوئی معیار متعین کرنا ہوتو ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مکمل نمونہ ادب کی تعریف کی جاۓ ۔ اس اعتبار سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ادب کے دو اجزائے ترکیبی ہیں ایک فکر، دوسرے فن اور ایک مکمل ادبی تخلیق اسی وقت بروۓ کار آۓ گی جب فکر اورفن دونوں ہی اعلیٰ درجہ کے ہوں گے اور ان کے اندر مکمل  ہم آہنگی بھی پیدا ہو جاۓ اور فکر وفن کا یہ مرکب زندگی اور ادب کی بہترین قدروں کا مظہر ہواس سے انسانی تہذیب کی جمالیات اور اخلاقیات دونوں کو فروغ پانے کا موقع ملے ۔

سوال 3- اردوادب میں تنقیدی روایات کا جائزہ لیجئے ۔

جواب : اردوادب میں تنقید کی روایت اسی قد رقدیم ہے جتنے دیگر اصناف کی روایت قدیم ہے ۔ چنانچہ اردو ادب کی ابتدائی روایتوں میں جوشعراء کے تذکرے لکھے گئے ہیں یعنی کلام شعراء کے ساتھ کلام پر جو تبصرے لکھے گئے ہیں وہ دراصل تنقید کے ہی زمرے میں آتے ہیں ۔

کسی بھی ادبی نگارش کے بارے میں کھرے اور کھوٹے کی پر کھ کو ہی تنقید کہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ جب ہم کسی ادبی نگارش کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو اس کی خامیوں کا ہی تذکرہ کرتے ہیں اور اسی کو تنقید کا نام دید تے ہیں ۔ جب کہ ادبی خوبیوں کو بھی تنقید کے زمرے میں رکھنا چاہیئے ۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقید کا وجو دعمل میں آ گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ تنقید کو باضابطہ فنی حیثیت حاصل نہیں بھی لیکن تذکروں کی کتابوں میں تنقید کا وجود تھا ۔

اردو کی تنقید کا باضابطہ آغاز الطاف حسین حالی کی کتاب” مقدمہ شعر و شاعری “سے سمجھنا چاہیئے-یہ کتاب در اصل کلیات حالی کا ایک طویل مقدمہ تھا جس میں حالی نے شعر کی ماہیئت بیان کرتے ہوئے اس  کی چند خامیوں کی نشاندہی کی تھی اور اصلاح کے چند مفید مشورے بھی دیئے تھے ۔ اس زمانے میں شبلی نعمانی کی ”مواز نہ انیس و دبیر”منظر عام پر آئی اور تنقیدی تصانیف کا ایک سلسلہ چل پڑا ۔ پروفیسر کلیم الدین احمد نے “ار دو شاعری پر ایک نظر “اور” اردوتنقید پر ایک نظر ” جیسے معرکتہ الاراء تصانیف پیش کیں ۔ اس کے بعد آل احمد سرور ، پروفیسر احتشام حسین وغیرہ نے اردو تنقید کے سرمائے میں قیمتی اضافے کئے پھر حال کے برسوں میں  ڈاکٹر عبدالمغنی نے اردو تنقید میں مزید وسعت پیدا کی ۔ آج اردو تنقید کی روایت اور اس کا سرمایہ کسی بھی ادبی اصناف سے کم نہیں ہے ۔ جب

تک تنقید کا وجود ہے تخلیق میں شفافیت کا عمل جاری رہے گی ۔

error: Content is protected !!